پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کی ہفتہ وار پریس بریفنگ جمعرات کے روز فیس بک کے ذریعے لائیو دکھائی گئی۔
یہ ایک اچھا اقدام ہے اور اس سے لگتا ہے کہ شاید کچھ سرکاری لوگوں کو سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سوشل میڈیا آج کے دور کا ایک کارآمد ہتھیار ہے۔ روایتی جنگ یا میڈیا وار ہو یا ہائبرد وارفیئر یا پھر سائبر وارفیئر یہ ایک انتہائی موثر ابزار بن گیا ہے۔ اس کے علاوہ پبلک ڈیپلومیسی کے لیے بھی سوشل میڈیا سے استفادہ کیا جارہاہے۔ سوشل میڈیا خصوصاً لائیو کوریج کے ذریعے پاکستان بھی اپنا پیغام دنیا کے ہر اس کونے میں پہنچا سکتاہے جہاں انٹرنیٹ کی سہولت ہے۔ یہ پیغام ہر اس انسان تک جاسکتاہے جس کے پاس سائبر سہولت ہے۔ آج کے دور میں تو کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ہر اس انسان کے ہاتھ میں ہے جس کے پاس سمارٹ فون ہے۔
کئی ممالک کی خارجہ امور کی وزارتوں میں تو سوشل میڈیا کا باقاعدہ سیل ہے یا پھر پورا ڈائریکٹریٹ ہے اور وہ اپنے مقاصد کے لیے سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کررہے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے یورپ کے ایک ملک میں ایک کانفرنس میں شرکت کا اتفاق ہوا اور اس کانفرنس کے دوران ایک ملک کی وزارت خارجہ کے سوشل میڈیا کے امور کے ڈائریکٹر نے لیچکر دیا جس میں انھوں نے بتایاکہ ان کی وزارت خارجہ میں سوشل میڈیا کا ایک ڈائریکٹریٹ کام کررہاہے اور سماجی رابطوں کی دیگر سائٹس کے علاوہ، صرف فیس بک پر ان کے پانچ زبانوں میں صفحات موجود ہیں جو مسلسل اپ ڈیٹ ہوتے رہتے ہیں۔ انھوں نے بتایاکہ سوشل میڈیا ہماری پالیسی کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ایک مفید اور موثر ہتھیار ہے اور ہم اس سے بھرپور استفادہ کررہے ہیں۔
پاکستان کی وزارت خارجہ جس میں متعدد ڈویژنز اور ڈائریکٹریٹس ہیں، کی نگرانی میں ابھی تک سوشل میڈیا کے حوالے سے کوئی باقاعدہ سیکشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ابھی تک سوشل میڈیا کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ سوشل میڈیا کو اہمیت نہ دی جانے کی وجہ سے آج لائیو براڈکاسٹ ہونے والی پریس کانفرنس بھی نان پروفیشنل طریقے سے بنائی جارہی تھی۔ ایک تو اس میں کسی پروفیشنل کیمرے کے بجائے موبائل کیمرہ استعمال ہو رہا تھا اور کیمرہ پکڑنے والے نے اسے عمودی پکڑا ہوا تھا جس سے پورے منظر کی تصویر کشی نہیں ہوسکتی۔ اس عمودی زاویے سے زمین کے ساتھ چھت تو دکھائی دیتی ہے لیکن اس سے منظر پر پورا فوکس نہیں ہوتا اور کچھ ایسا ہی ڈاکٹر فیصل کی پریس بریفنگ کے دوران ہورہا تھا۔ حتی اس تصویر کشی کے دوران ڈائس پر موجود مختلف ٹی وی چینلجنوں کے مائیک کی بکھری ہوئی تاریں تو پوری طرح دکھائی دے رہی تھیں لیکن کیمرہ نزدیکی زوم کے ذریعے ترجمان کے چہرے پر پوری طرح فوکس نہیں تھا بلکہ انہیں دور سے دکھا رہا تھا۔
یادرکھیں موبائل کیمرے کی تصویر کشی کے دوران کیمرے کو افقی رکھنا چاہیے تاکہ پورے منظر کی تصویر کشی ہوسکے۔ دوسرا یہ کہ سوال کرنے والوں کو کیمرہ نہیں دکھا رہا تھا جس سے یہ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ سوال کرنے والا کون ہے۔
ایک بات یہ بھی قابل توجہ تھی کہ کیمرہ استعمال کرنے والے نے پریس کانفرنس شروع ہونے سے قبل ہی کیمرہ آن کردیا تھا جس سے فالتو باتیں بھی سامنے آرہی تھیں۔ مثلا ترجمان ڈاکٹر فیصل سامنے لگی ہوئی گھڑی پر وقت دیکھ رہے ہیں کہ ابھی گھڑی پر کیا وقت ہوا جبکہ سامنے والے لوگ کہہ رہے ہیں کہ بسمہ اللہ کریں۔ آواز کی کیفیت بھی درست نہیں تھی، جس کا مطلب یہ ہے کہ کیمرے میں مائیک استعمال نہیں ہورہاتھا۔ بہتری کے لیے دوسروں سے بھی سیکھا جاسکتاہے اور اس کے لیے نیچے امریکی وزارت خارجہ کے ترجمان کی لائیو پریس بریفنگ ایک لینک مثال کے طور پر پیش خدمت ہے جس میں بہترین تصویر کشی کی گئی ہے اور ترجمان اور شرکا اور انکی صاف آواز مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ بہرحال یہ ساری باتیں اس لئے ہیں تاکہ اصلاح کی جائے، سوشل میڈیا کی اہمیت کو سمجھا جائے اور کوالٹی کا بہتر بنایاجائے۔سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر کام کی ضرورت ہے، خاص طور پر وزارت خارجہ کو اس پر زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔
لینک برائے پریس بریفنگ ترجمان امریکی وزارت خارجہ: ۔
نوٹ: مضمون نویس پی ایچ ڈی (آئی ر) ریسرچ سکالر اور سینئر صحافی ہیں۔